|
کسی آدمی کے اپنے خیالات دوسرے کے دماغ میں منتقل کرنے کا خفیہ علم یا عمل۔ یہ علم مدت سے زیر عمل ہے۔ لیکن سائنسدان اس پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ البتہ اب کچھ سائنس دان اس کو اپنے ذاتی تجربے کی بنا پر تسلیم کر چکے ہیں۔ اس موضوع پر سب سے عمدہ لٹریچر ڈاکٹر رائس کی تصنیف ہے۔ ڈاکٹر موصوف کا خیال ہے کہ خیالات منتقل کرنے کی طاقت کم و بیش ہر شخص میں پائی جاتی ہے۔ اس نے اپنے تمام دعووں کو اپنے عمل میں تجربات کے ذریعے ثابت کیا ۔اس کا طریقہ کار یہ تھا کہ وہ انے معمول میں تاش کے پتوں کی رح کے پتوں کی ایک گڈی رکھتا تھا۔ ان پتوں پر چار قسم کے سادہ ڈیزائن منقش تھے۔ عامل گڈی پر سے ایک ایک کارڈ اٹھاتا جاتا تھا۔ اور معمول محض عامل کے چہرے پر نظر ڈال کر ان پتوں کی حقیقت بتاتا جاتا ۔ چنانچہ ایک بارہ سالہ بچے نے تاش کی تمام گڈی کے ہر پتے کی کیفیت صحیح صحیح بتا دی ۔
ٹیلی پیتھی سے متعلق سب سے پہلے مسٹر سجوک Sidgwick نے 1871ء میں تجربات کیے تھے۔ اس علم کے بارے میں اب بھی مطالعہ اور تحقیق جاری ہے ۔ سر ڈبلیو کرکس نے اس علم کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ امواج کے ایک سلسلے کی بدولت ایک انسان دوسرے تک اپنے خیالات پہنچا سکتا ہے۔ اسی قسم کا نظریہ ہندوؤں میں بھی پایا جاتا ہے۔ دماغی رابطہ، سائنس فکشن فلموں سے نکل کر اب حقیقت میں
سائنسدانوں کے مطابق انہوں نے دو چوہوں کے ذہنوں کے درمیان الیکٹرونک رابطہ پیدا کرنے میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔ ان سائنسدانوں نے لنک کے ذریعے ریئل ٹائم میں براہ راست رابطے اور مشترکہ کوشش سے مسائل حل کرنے کا مشاہدہ کیا۔
برازیل کی ایک لیبارٹری میں موجود ایک چوہے کی ذہنی کیفیت کو الیکٹرونک سینسرز کے ذریعے حاصل کرنے کے بعد انہیں بذریعہ انٹرنیٹ امریکا میں موجود ایک دوسرے چوہے کے دماغ تک منتقل کیا گیا۔ تحقیقی جریدے ’سائنٹیفک رپورٹس‘ میں جمعرات 28 فروری کو شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق اس لنک کے نتیجے میں سائنسدانوں نے امریکا میں موجود چوہے کی طرف سے برازیل میں موجود چوہے کی حرکات وسکنات کی نقل کرنے کا مشاہدہ کیا۔ سائنسدانوں نے اسے دماغی رابطے یا مائنڈ لنک کا نام دیا ہے۔
برازیل کے شہر نتال کے ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے نیورو بائیالوجسٹ میگیل نکولیلیس Miguel Nicolelis کے مطابق اس پیشرفت سے جانوروں کے دماغوں کو آپس میں منسلک کرکے ان کی مجموعی ذہات کو بروئے کار لانے یا ’آرگینک کمپیوٹر‘ بنانے کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔ تجربے کے دوران انکوڈر چوہے نے سیکھا کہ کونسا بٹن دبانے سے اسے بطور انعام خوراک ملتی ہے تجربے کے دوران انکوڈر چوہے نے سیکھا کہ کونسا بٹن دبانے سے اسے بطور انعام خوراک ملتی ہے
خبر رساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے نکولیلیس کا کہنا تھا، ’’ہم نے دو دماغوں کے درمیان ایک کام کرتا ہوا رابطہ پیدا کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ ہم نے ایک سپر برین بنایا ہے جو دو دماغوں پر مشتمل ہے۔‘‘
میگیل نکولیلیس کی ٹیم نے ایک پیاسے چوہے کو ابتدائی ٹریننگ دی جو مختلف روشنیوں کو پہچانتے ہوئے ایک لیور کو دباتا اور اس کے نتیجے میں اسے بطور انعام پینے کے لیے پانی ملتا۔ اس کے بعد ان ماہرین نے انتہائی باریک الیکٹروڈز اس چوہے کے دماغ پر لگائے جو بہت ہی نازک تاروں کے ذریعے ایک کمپیوٹر سے منسلک تھے۔
نتال میں موجود چوہا جسے تکنیکی اصطلاح میں ’انکوڈر‘ کا نام دیا گیا، کیونکہ اس کا دماغ پانی یا انعام حاصل کرنے کے لیے پزل یا معمے کو حل کرتے ہوئے الیکٹریکل سگنلز بھیجتا ہے۔
یہ الیکٹریکل سگنلز بذریعہ انٹرنیٹ بالکل ریئل ٹائم میں دوسرے چوہے کے دماغ کے ’کورٹیکس‘ تک منتقل کیے گئے۔ اس چوہے کو تکنیکی اصطلاح میں ’ڈی کوڈر‘ کا نام دیا گیا۔ شمالی کیرولینا میں موجود اس چوہے کے سامنے بالکل ویسا ہی اپریٹس موجود تھا جسیا انکوڈر کے سامنے۔ تاہم اس چوہے کو اس اپریٹس سے پانی حاصل کرنے کے لیے کسی قسم کی کوئی ٹریننگ نہیں دی گئی تھی۔
تجربے کے دوران انکوڈر چوہے نے سیکھا کہ کونسا بٹن دبانے سے اسے بطور انعام خوراک ملتی ہے۔ اس چوہے کی ذہنی ایکٹیویٹی کا پیٹرن یا ترتیب جب دوسرے چوہے یا ڈی کوڈر تک منتقل کی جاتی تو وہ کسی نظر آنے والے اشارے کی غیر موجودگی کے باوجود وہی عمل دہراتا جو انکوڈر چوہے نے کیا تھا اور اس میں کامیابی کا تناسب 70 فیصد تک نوٹ کیا گیا۔ شمالی کیرولینا میں موجود اس چوہے کے سامنے بالکل ویسا ہی اپریٹس موجود تھا جسیا انکوڈر کے سامنے شمالی کیرولینا میں موجود اس چوہے کے سامنے بالکل ویسا ہی اپریٹس موجود تھا جسیا انکوڈر کے سامنے
نکولیلیس کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق، ’’یہ تجربات ثابت کرتے ہیں کہ ہم نے دونوں چوہوں کے دماغوں کے درمیان ایک بہت ہی نازک اور براہ راست رابطہ پیدا کر لیا اور یہ کہ ڈی کوڈر کا دماغ دراصل ایک ’پیٹرن ریکگنیشن ڈیوائس‘ کے طور پر کام کرتا ہے۔ لہذا ہم نے ایک ایسے چیز بنانے میں کامیابی حاصل کر لی ہے جسے میں آرگینک کمپیوٹر کا نام دیتا ہوں۔‘‘
جب دوسرا چوہا کسی کام کو کرنے میں ناکام ہو جاتا تو اس کا دماغ پہلے چوہے یا انکوڈر کے پاس اس کا فیڈبیک بھیجتا اور نتیجے کے طور پر انکوڈر کی طرف سے زیادہ واضح برین پیٹرن کا مشاہدہ کیا گیا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مسئلہ حل کرنے کے لیے دونوں دماغوں نے مل کر کام کیا۔
اس تحقیق میں شریک ایک اور ماہر میگیل پائس وی ایریا Miguel Pais-Vieira کے مطابق، ’’اس تجربے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہم جانوروں کے دماغوں کا ایک ایسا نیٹ ورک بنا سکتے ہیں جو بہت سے مختلف مقامات پر موجود ہونے کے باوجود مشترکہ طور پر کام کر سکتا ہے۔‘‘
اس تجربے کی کامیابی کے بعد نکولیلیس کی ٹیم کے سائنسدانوں کا خیال ہے کہ وہ مستقبل میں جانوروں کے دماغوں کو آپس میں منسلک کر سکیں گے جس سے وہ ایسے مسائل حل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے جو وہ اپنے طور پر حل نہیں کر سکتے۔
0 comments:
Post a Comment