Pages

Be The First To Comment
کسی آدمی کے اپنے خیالات دوسرے کے دماغ میں منتقل کرنے کا خفیہ علم یا عمل۔ یہ علم مدت سے زیر عمل ہے۔ لیکن سائنسدان اس پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ البتہ اب کچھ سائنس دان اس کو اپنے ذاتی تجربے کی بنا پر تسلیم کر چکے ہیں۔ اس موضوع پر سب سے عمدہ لٹریچر ڈاکٹر رائس کی تصنیف ہے۔ ڈاکٹر موصوف کا خیال ہے کہ خیالات منتقل کرنے کی طاقت کم و بیش ہر شخص میں پائی جاتی ہے۔ اس نے اپنے تمام دعووں کو اپنے عمل میں تجربات کے ذریعے ثابت کیا ۔اس کا طریقہ کار یہ تھا کہ وہ انے معمول میں تاش کے پتوں کی رح کے پتوں کی ایک گڈی رکھتا تھا۔ ان پتوں پر چار قسم کے سادہ ڈیزائن منقش تھے۔ عامل گڈی پر سے ایک ایک کارڈ اٹھاتا جاتا تھا۔ اور معمول محض عامل کے چہرے پر نظر ڈال کر ان پتوں کی حقیقت بتاتا جاتا ۔ چنانچہ ایک بارہ سالہ بچے نے تاش کی تمام گڈی کے ہر پتے کی کیفیت صحیح صحیح بتا دی ۔
ٹیلی پیتھی سے متعلق سب سے پہلے مسٹر سجوک Sidgwick نے 1871ء میں تجربات کیے تھے۔ اس علم کے بارے میں اب بھی مطالعہ اور تحقیق جاری ہے ۔ سر ڈبلیو کرکس نے اس علم کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ امواج کے ایک سلسلے کی بدولت ایک انسان دوسرے تک اپنے خیالات پہنچا سکتا ہے۔ اسی قسم کا نظریہ ہندوؤں میں بھی پایا جاتا ہے۔ دماغی رابطہ، سائنس فکشن فلموں سے نکل کر اب حقیقت میں
سائنسدانوں کے مطابق انہوں نے دو چوہوں کے ذہنوں کے درمیان الیکٹرونک رابطہ پیدا کرنے میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔ ان سائنسدانوں نے لنک کے ذریعے ریئل ٹائم میں براہ راست رابطے اور مشترکہ کوشش سے مسائل حل کرنے کا مشاہدہ کیا۔
برازیل کی ایک لیبارٹری میں موجود ایک چوہے کی ذہنی کیفیت کو الیکٹرونک سینسرز کے ذریعے حاصل کرنے کے بعد انہیں بذریعہ انٹرنیٹ امریکا میں موجود ایک دوسرے چوہے کے دماغ تک منتقل کیا گیا۔ تحقیقی جریدے ’سائنٹیفک رپورٹس‘ میں جمعرات 28 فروری کو شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق اس لنک کے نتیجے میں سائنسدانوں نے امریکا میں موجود چوہے کی طرف سے برازیل میں موجود چوہے کی حرکات وسکنات کی نقل کرنے کا مشاہدہ کیا۔ سائنسدانوں نے اسے دماغی رابطے یا مائنڈ لنک کا نام دیا ہے۔
برازیل کے شہر نتال کے ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے نیورو بائیالوجسٹ میگیل نکولیلیس Miguel Nicolelis کے مطابق اس پیشرفت سے جانوروں کے دماغوں کو آپس میں منسلک کرکے ان کی مجموعی ذہات کو بروئے کار لانے یا ’آرگینک کمپیوٹر‘ بنانے کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔ تجربے کے دوران انکوڈر چوہے نے سیکھا کہ کونسا بٹن دبانے سے اسے بطور انعام خوراک ملتی ہے تجربے کے دوران انکوڈر چوہے نے سیکھا کہ کونسا بٹن دبانے سے اسے بطور انعام خوراک ملتی ہے
خبر رساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے نکولیلیس کا کہنا تھا، ’’ہم نے دو دماغوں کے درمیان ایک کام کرتا ہوا رابطہ پیدا کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ ہم نے ایک سپر برین بنایا ہے جو دو دماغوں پر مشتمل ہے۔‘‘
میگیل نکولیلیس کی ٹیم نے ایک پیاسے چوہے کو ابتدائی ٹریننگ دی جو مختلف روشنیوں کو پہچانتے ہوئے ایک لیور کو دباتا اور اس کے نتیجے میں اسے بطور انعام پینے کے لیے پانی ملتا۔ اس کے بعد ان ماہرین نے انتہائی باریک الیکٹروڈز اس چوہے کے دماغ پر لگائے جو بہت ہی نازک تاروں کے ذریعے ایک کمپیوٹر سے منسلک تھے۔
نتال میں موجود چوہا جسے تکنیکی اصطلاح میں ’انکوڈر‘ کا نام دیا گیا، کیونکہ اس کا دماغ پانی یا انعام حاصل کرنے کے لیے پزل یا معمے کو حل کرتے ہوئے الیکٹریکل سگنلز بھیجتا ہے۔
یہ الیکٹریکل سگنلز بذریعہ انٹرنیٹ بالکل ریئل ٹائم میں دوسرے چوہے کے دماغ کے ’کورٹیکس‘ تک منتقل کیے گئے۔ اس چوہے کو تکنیکی اصطلاح میں ’ڈی کوڈر‘ کا نام دیا گیا۔ شمالی کیرولینا میں موجود اس چوہے کے سامنے بالکل ویسا ہی اپریٹس موجود تھا جسیا انکوڈر کے سامنے۔ تاہم اس چوہے کو اس اپریٹس سے پانی حاصل کرنے کے لیے کسی قسم کی کوئی ٹریننگ نہیں دی گئی تھی۔
تجربے کے دوران انکوڈر چوہے نے سیکھا کہ کونسا بٹن دبانے سے اسے بطور انعام خوراک ملتی ہے۔ اس چوہے کی ذہنی ایکٹیویٹی کا پیٹرن یا ترتیب جب دوسرے چوہے یا ڈی کوڈر تک منتقل کی جاتی تو وہ کسی نظر آنے والے اشارے کی غیر موجودگی کے باوجود وہی عمل دہراتا جو انکوڈر چوہے نے کیا تھا اور اس میں کامیابی کا تناسب 70 فیصد تک نوٹ کیا گیا۔ شمالی کیرولینا میں موجود اس چوہے کے سامنے بالکل ویسا ہی اپریٹس موجود تھا جسیا انکوڈر کے سامنے شمالی کیرولینا میں موجود اس چوہے کے سامنے بالکل ویسا ہی اپریٹس موجود تھا جسیا انکوڈر کے سامنے
نکولیلیس کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق، ’’یہ تجربات ثابت کرتے ہیں کہ ہم نے دونوں چوہوں کے دماغوں کے درمیان ایک بہت ہی نازک اور براہ راست رابطہ پیدا کر لیا اور یہ کہ ڈی کوڈر کا دماغ دراصل ایک ’پیٹرن ریکگنیشن ڈیوائس‘ کے طور پر کام کرتا ہے۔ لہذا ہم نے ایک ایسے چیز بنانے میں کامیابی حاصل کر لی ہے جسے میں آرگینک کمپیوٹر کا نام دیتا ہوں۔‘‘
جب دوسرا چوہا کسی کام کو کرنے میں ناکام ہو جاتا تو اس کا دماغ پہلے چوہے یا انکوڈر کے پاس اس کا فیڈبیک بھیجتا اور نتیجے کے طور پر انکوڈر کی طرف سے زیادہ واضح برین پیٹرن کا مشاہدہ کیا گیا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مسئلہ حل کرنے کے لیے دونوں دماغوں نے مل کر کام کیا۔
اس تحقیق میں شریک ایک اور ماہر میگیل پائس وی ایریا Miguel Pais-Vieira کے مطابق، ’’اس تجربے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہم جانوروں کے دماغوں کا ایک ایسا نیٹ ورک بنا سکتے ہیں جو بہت سے مختلف مقامات پر موجود ہونے کے باوجود مشترکہ طور پر کام کر سکتا ہے۔‘‘
اس تجربے کی کامیابی کے بعد نکولیلیس کی ٹیم کے سائنسدانوں کا خیال ہے کہ وہ مستقبل میں جانوروں کے دماغوں کو آپس میں منسلک کر سکیں گے جس سے وہ ایسے مسائل حل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے جو وہ اپنے طور پر حل نہیں کر سکتے۔

ٹیلی پیتھی اور ہم

Be The First To Comment
خارق العادات مظاہر (ٹیلی پیتھی، کشف، روشن ضمیری اور تنویم وغیرہ) پر سائنسی تحقیقات صرف ترقی یافتہ ملکوں میں ہورہی ہے اور ہم آج بھی اوہام و قیاسات کے اندھیروں میں بھٹک رہے ہیں۔ مغربی محققین نے ٹیلی پیتھی کے موضوع پر پچھلے سو برسوں میں جو تحقیقات کی ہیں ان سے ثابت ہوگیا ہے کہ دو ذہن کسی جسمانی رابطے کے بغیر ایک دوسرے سے بذریعہ خیال و تصور پیوستہ اور وابستہ ہوسکتے ہیں۔ ایف ڈبلیو ایچ مائرس نے مابعد النفسیات کے مختلف شعبوں پر جو تحقیقات کی ہیں ان کا ثبوت انگلستان کے علمی ادارے S.P.R کے جنرلز، مطبوعات و رسائل سے مل سکتا ہے۔ ڈاکٹر مائرس نے ٹیلی پیتھی کے تجربات سائنسی تجربہ گاہوں (لیبارٹریز) میں کیے ہیں اور ان تجربات کے نتیجے میں ٹیلی پیتھی کو بطور ایک سائنسی حقیقت کے تسلیم کرلیا گیا ہے، یہی نہیں بلکہ ہر شخص کو اپنی زندگی کے کسی نہ کسی مرحلے میں کسی نہ کسی حد تک یہ تجربہ ضرور ہوا ہوگا کہ اس کا دماغی رابطہ کسی شخص سے قائم ہوگیا ہے، چاہے چند لمحے کے لیے ہی سہی۔
تاہم آج تک کوئی شخص یہ نہیں بتاسکتا کہ ٹیلی پیتھی کیا ہے اور کسی وسیلہ مادی یا حواس خمسہ کے توسط کے بغیر ایک ذہن کس طرح دوسرے ذہن تک اپنے خیال کی لہریں اور تاثرات کی امواج پہنچا سکتا ہے۔ البتہ یہ بتایا جاسکتا ہے کہ ٹیلی پیتھی کیا نہیں ہے۔ جیسے ہم یہ جانتے ہیں کہ وہ مادی طاقت کی کوئی قسم مثلاً تابکاری (Radiation) نہیں ہے، ریڈیو ٹی وی وغیرہ، یہ تمام لہریں حرکت کے معلوم قوانین کے تحت عمل کرتی ہیں لیکن ڈاکٹر ایس جی مول کے الفاظ میں ٹیلی پیتھی رابطے میں فاصلہ حائل نہیں ہوتا۔ ان ڈاکٹر صاحب نے ٹیلی پیتھی کے سلسلے میں بہت سے تجربات کیے ہیں اور اس موضوع پر بلند پایہ مضامین لکھے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ دو ذہنوں کے درمیان رابطے کے بعد مسافت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
بلکہ کائنات کے تمام ذہن ایک کائناتی ذہن سے تعلق رکھتے ہیں اور ایک ذہن سے جو تصور گزرتا ہے وہ آناً فاناً تمام ذہنوں کو متاثر کرسکتا ہے کیونکہ یہ تمام شاخیں ایک ہی جڑ سے پیوستہ ہیں اور وہ جڑ ہے شعور مطلق، جو کائنات کی اصل و اساس ہے۔ صرف انسانوں ہی کے درمیان ٹیلی پیتھی رابطہ قائم نہیں ہوتا بلکہ حیوانوں اور آدمیوں کے درمیان بھی یہی رشتہ برقرار ہے بلکہ ایک قدم آگے بڑھیے تو انسان و درخت بھی افہام و تفہیم کے ایک باطنی رشتے میں پروئے ہوئے ہیں۔ سوشیالوجسٹ ڈاکٹر جی ایم مہکری لکھتے ہیں کہ ایک بات روز بروز واضح ہوتی چلی جارہی ہے کہ کل کے بہت سے واہمے آج کی ایسی سائنسی حقیقتوں کا روپ دھار چکے ہیں جن کا تجربہ کیا جاچکا ہے اور جنھیں متواتر عملی تجربات سے ثابت کیا جاسکتا ہے، مثلاً یہی بات کہ پودوں میں شعور موجود ہے، یعنی درخت سنتے، سمجھتے، محسوس کرتے اور بولتے ہیں، ایک ایسی زبان میں جو الفاظ کی محتاج نہیں۔
پچھلے زمانے میں گائوں کی پنچایتیں ملزم کو ہدایت کرتی تھیں کہ اگر وہ سچا ہے تو فلاں درخت کے نیچے کھڑے ہو کر اپنی بے گناہی کی قسم کھالے۔ قسم کھانے والے کو جرات نہ ہوتی کہ وہ درخت کے سامنے جھوٹ بول سکے، اسے یقین تھا کہ پیڑ اس کے جھوٹ، سچ میں تمیز کرلے گا۔ کل تک ہم اس پنچایتی فیصلے کو دیہاتیوں کا واہمہ سمجھ کر نظر انداز کردیتے تھے لیکن آج جھوٹ پکڑنے والے آلے (Lie Ditactor) کو آپ Psyic galvanic reflex machine کے ساتھ کسی درخت سے منسلک کرکے جھوٹ بولنے کا ارادہ کریں تو درخت فوراً اپنا ردعمل ظاہر کرے گا اور ریکارڈ کرادے گا کہ تم جھوٹ بول رہے ہو۔ یہ واہمہ کہ درخت سمجھتے، محسوس کرتے اور انسانی پیغام وصول کرکے جواب دیتے ہیں، ایک تسلیم شدہ سائنسی حقیقت میں کس طرح تبدیل ہوا یہ کہانی بہت عجیب و غریب ہے۔ امریکا میں ایک شخص Beckster جو لائی ڈیٹیکٹر ایکسپرٹ کی حیثیت سے ممتاز تھا اور اس کا کام تھا کہ اس آلے کے ذریعے زیر تفتیش مجرموں کا جھوٹ سچ معلوم کرے، ایک روز اسے خیال آیا کہ کیوں نہ اس آلے کو کسی درخت کے ساتھ نتھی کرکے اس کے ردعمل کا اندازہ لگایا جائے۔
بیکسٹر نے اپنے بائی گراف کے تار کو لائی ڈیٹیکٹر کے سامنے لگے ہوئے ایک پودے کے ساتھ نتھی کردیا اور تجربے کے طور پر سوچا کہ اس پودے کو جلادیا جائے۔ فوراً آلے کا پوائنٹر حرکت کرنے لگا یعنی پودے نے فوراً محسوس کرلیا کہ بیکسٹر کیا سوچ رہا ہے۔ بیکسٹر کو شبہ ہوا کہ شاید مشین میں کوئی خرابی ہے۔ مشین کو چیک کیا گیا، وہ صحیح کام کررہی تھی اور مشین میں کوئی خرابی نہیں تھی۔ دوبارہ پھر اس نے خیال کیا کہ پودے کو جلا دینا چاہیے۔ ایک مرتبہ پھر پوائنٹر کی سوئی حرکت کرنے لگی۔ اس تجربے کے ساتھ ایک نئی سائنس وجود میں آگئی یعنی پودوں اور انسانوں کے درمیان رابطہ بذریعہ خیال۔ اس سے قبل ہندوستان کے سائنس دان  جگدیش چندربوس نے آلات کے ذریعے اس امر کا ثبوت بہم پہنچا کر دنیا کو حیران کردیا تھا کہ پیڑ اور پودے احساسات سے محروم نہیں ہیں، اگر آپ ان کی جڑوں میں شراب چھڑک دیں تو ان پر بدمستی طاری ہوجاتی ہے، اگر ان کے پتے نوچیں تو وہ درد اور کرب محسوس کرتے ہیں، یہی نہیں بلکہ انسانوں اور حیوانوں کی طرح وہ سوتے جاگتے بھی ہیں۔ مگر بیکسٹر کی تحقیق ایک قدم آگے ہے۔ بیکسٹر نے سائنسی طور پر تجربہ کردیا کہ پودے دوسروں کے خیالات و جذبات پڑھ لیتے ہیں۔ صرف اس پر اکتفا نہیں، بیکسٹر اور اس کے رفقا تحقیق نے آلات اور تجربات کی مدد سے اس امر کے ثبوت بہم پہنچائے کہ درخت کتنے ہی فاصلے پر کیوں نہ ہوں وہ اپنے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے خیالات و جذبات سے آگاہ ہوجاتے ہیں۔
یہ معاملہ یہیں ختم نہیں ہوجاتا بلکہ مسئلہ زیادہ پیچیدہ اور حیرت ناک ہے۔ یہ سائنسی انکشاف اور بھی چونکا دینے والا ہے کہ درختوں میں مستقبل بینی کی صلاحیت موجود ہے اور وہ آئندہ آنے والے واقعات سے واقف ہوجاتے ہیں۔ سوویت یونین کی انقلاب آفریں ایجاد ’’کیرلین فوٹو گرافی‘‘ تمام جاندار اجسام، درخت، جانور اور آدمی کے ہالہ نور (جسم مثالی) کی تصویر اتار سکتی ہے۔ ان تصاویر سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ جب درخت کے پتے نوچے جاتے ہیں تو وہ زندہ اور باشعور آدمی کی طرح تکلیف محسوس کرتا ہے اور جب نرمی و محبت سے ہاتھ پھیرا جائے تو ان کا ہالہ نور درخشاں ہوجاتا ہے۔ جان وائٹ نے اپنی کتاب Psychic power of plants (درختوں کی روحی طاقتیں) میں متعدد شواہد سے ثابت کیا ہے کہ جب درختوں کے سامنے رقص کیا جاتا ہے تو ان کی نشوونما میں اضافہ ہوجاتا ہے اور وہ مزید سرسبز و شاداب ہوجاتا ہے۔ اس انکشاف سے ایک اور قدیم روایت کی تصدیق ہوگئی کہ عہد قدیم میں لوگ فصلوں کی کاشت کے وقت طرح طرح کی رسوم ادا کرتے تھے مثلاً رقص و موسیقی اور نشاط آور اجتماعات، ان کا عقیدہ تھا کہ ان رسموں کی بجاآوری سے پودوں کی بڑھوتری، زمین کی زرخیزی اور کھیتوں کی پیداوار میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ پہلے یہ ایک قبائلی مفروضہ تھا اب یہ ایک علمی اور تجرباتی حقیقت ہے۔ گویا ہزاروں سال پہلے لوگ وہ سب کچھ وجدانی طور پر جانتے تھے جنھیں جدید سائنس لیبارٹری کے تجربات سے ثابت کررہی ہے یعنی عالم نباتات کی مخلوق،انسانوں کے جذبات، تاثرات، تصورات اور احساسات کو سمجھتی، جانتی، پہچانتی ہے بلکہ اس معاملے میں وہ انسان سے زیادہ حساس و باشعور ہے۔

Meditation for Telepathy

Be The First To Comment
ٹیلی پیتھی‘ ہپناٹزم‘ مسمریزم کیا ہے؟
ٹیلی پیتھی اس علم کا نام ہے جس کے ذریعے دو انسان بغیر کسی مادی وسیلے کے ایک دوسرے کے ذہنوں سے رابطہ کریں‘ چاہے وہ ایک دوسرے سے کتنے ہی دور کیوں نہ ہوں۔
یکسوئی کا حامل جب کسی کی طرف اپنا خیال روانہ کرتا ہے تو مطلوبہ شخص ہزاروں لاکھوں میل دور سے خیال وہم یا گمان کی صورت میں محسوس کرلیتا ہے لیکن ان قوتوں کو پانے کیلئے ضروری ہے کہ انسان یکسوئی کہ اس درجے پر پہنچ چکا ہو کہ جس کام جس غرض کیلئے یکسو ہوجائے تو ایسا غرق ہوجائے
عام لوگ اس بات کو طنزو مزاح ضرور سمجھیں گے لیکن علوم مخفی کے طالب علم اس کے اثرات کے نہ صرف قائل ہیں بلکہ اس وقت کو حاصل کرنے کیلئے کچھ بھی کرنے سے گریز نہیں کرتے‘ بات شمس بینی کی آجائے تو نازک آنکھوں کو چمکتے دھکتے سورج پر یوں گاڑھ دیتے ہیں کہ آنکھ جھپکنا بھول جاتے ہیں تو کبھی یہ کھیل شمع کی لو سے کھیلنا شروع کردیتے ہیں اور کبھی سانس کی مشقوں میں ہر روز حالت نزع کو برداشت کرنے کیلئے سینہ تان لیتے ہیں۔
ہاں ایسا ہی ہے علوم مخفی کے طالب علموں کی کارگزاریاں بیان کی جائیں تو عام انسان انگشت بدنداں ہوجاتا ہے۔
ان علوم پر غور کیا جائے تو یہ صرف اور صرف انگریزی کے نام ہی ہیں مثلاً ٹیلی پیتھی‘ ہپناٹزم‘ مسمریزم جس سے تاریخ سے بے خبر لوگ یہ نتیجہ اخذ کرلیتے ہیں کہ شاید یہ علوم انگریزوں کی ایجاد ہونگے لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے۔
جدید سائنس ان قوتوں کی تعریف کرتے ہوئے کہتی ہے کہ کمالات انسانی دماغ میں واقع دو غدود پینل گلینڈ اور پچوٹری گلینڈ کے بیدار ہونے سے حاصل ہوجاتے ہیں۔ جبکہ ہمارے اسلاف صدیوں پہلے ان رازوں سے آگاہ تھے جسے جدید سائنس پینل گلینڈ کہتی ہے صوفیاءاسلام نے صدیوں پہلے اسے لطیفہ خفی کے نام سے ذکر کیا ہے اور پچوٹری گلینڈ کو ہمارے اسلاف نے لطیفہ اخفی کے نام سے یاد کیا ہے۔
ہمارے بزرگوں نے ان دو غدود کے علاوہ بھی بہت کچھ بتایا ہے جس سے جدید سائنس تاحال بے خبر ہے اور اگر کچھ خبر بھی ہے تو مختلف ذرائع سے معلوم کرلیا گیا ہے۔
قوت ٹیلی پیتھی کا حصول ممکن ہے بشرطیکہ انسان میں مستقل مزاجی اور صبر کا مادہ ہو‘ اتنی بڑی قوتیں ہفتوں اور مہینوں میں حاصل نہیں کی جاسکتیں اس کیلئے ایک طویل عرصے کی ریاضت کی ضرورت ہے۔
ان قوتوں کو حاصل کرنے کیلئے جو ریاضتیں کی جاتی ہیں اسے عرف عام میں یکسوئی یا ارتکاز توجہ کی مشقیں کہتے ہیں۔ ارتکاز توجہ اور یکسوئی سے انسان اپنی تمام تر توجہ کو کسی ایک نکتہ پر قائم کرتا ہے جب توجہ کسی نکتے پر قائم ہوجاتی ہے تو انسان بے شمار خرق العادات کا حامل بن جاتا ہے مثلاً کشف القلوب‘ تھاٹ ریڈنگ‘ توجہ سے سلب امراض اور قوت خیال کے ذریعے لوگوں کو اپنا ہم خیال بنانا۔
یکسوئی کا حامل جب کسی کی طرف اپنا خیال روانہ کرتا ہے تو مطلوبہ شخص ہزاروں لاکھوں میل دور سے خیال وہم یا گمان کی صورت میں محسوس کرلیتا ہے لیکن ان باتوں کو پانے کیلئے ضروری ہے کہ انسان یکسوئی کے اس درجے پر پہنچ چکا ہو کہ جس کام جس غرض کیلئے یکسو ہوجائے تو ایسا غرق ہوجائے کہ آس پاس کی خبر نہ رہے‘ یکسوئی کی اس درجہ پر پہنچنے کیلئے ماہرین فن نے بے شمار مشقیں بیان کی ہیں۔ مثلاً آئینہ بینی‘ شمع بینی‘ دائرہ بینی‘ ماہتاب بینی‘ آفتاب بینی‘ جور بینی وغیرہ وغیرہ ان تمام بینوں کا مقصد اشغراق حاصل کرنا ہے ان مشقوں میں کامیابی تب ہوتی ہے جب یہ مشقیں یکسوئی سے کی جائیں اگرچہ یہ مشقیں یکسوئی کیلئے ہی کی جاتی ہیں لیکن یکسوئی سے مشقوں کا ہونا شرط اول ہے۔
موجودہ دور میں ہرطرف غم و الم کے تذکرے‘ بیروزگاری و مہنگائی کے چرچے نے لوگوں میں اتنی قوت باقی نہیں چھوڑی کہ توجہ چند سیکنڈ کیلئے بھی قائم ہونا مشکل ہے
علم یکسوئی کا سبق
صبح کی نماز سے قبل یا بعداز نماز حاجت ضروریہ سے فارغ ہوکر شمال کی طرف منہ کرکے ناک کے ذریعے آہستہ آہستہ سانس کھینچتے رہو جب مزید کھینچنے کی گنجائش نہ ہو تو سانس کو سینے میں قید کرلو‘ جتنی آہستگی سے سانس کھینچا تھا ایسی ہی آہستگی سے سانس روکے رکھو‘ جب مزید روکنا دشوار ہو تو آہستہ آہستہ سانس ناک کے ذریعے خارج کرو یہ ہوا ایک چکر۔ اب تھوڑی دیر سستا لو دوبارہ یہ عمل کرو‘ اسی طریقے سے پانچ چکر پورے کرلو جب پانچ چکر سانس کے پورے ہوجائیں اب آنکھیں بند کرکے تمام تر توجہ دل کی طرف مبذول کرلو اور یہ تصور کرو کہ میرے دل پر ایک شمع جل رہی ہے اندازاً یہ مشق آدھا گھنٹہ کریں۔ اسی طرح رات کو سوتے وقت اسی طریقے سے عمل کریں یعنی سانس کی مشقیں اور مراقبہ (تصور شمع) صبح اور شام کرنا ہے۔ ان مشقوں سے آپ کی ذہنی صلاحیتیں‘خوابیدہ قوتیں بیدار ہونا شروع ہوجائینگی۔ یہ مشقیں نہ صرف علوم مخفی کے طالبعلموں کیلئے ہیں بلکہ ان مشقوں سے انسان کی بے شمار نفسیاتی بیماریاں بھی رفع ہوجاتی ہیں اور سب سے بڑھ کر اہم اور خوشی کی بات یہ ہے کہ ان مشقوں سے انسان کے اندر مضبوط قوت ارادی بیدار ہوجاتی ہے جس کے بل بوتے پرانسان اپنی بہت سے بری عادات‘ جنسی کمزوری‘ نشے کی عادت پر قابو پالیتا ہے۔ اگرچہ علوم مخفی کے طالبعلموں نے سانس کی مشقیں صرف اور صرف روحی قوتیں بیدار کرنے کیلئے کی ہیں لیکن متواتر تجربات و مشاہدات سے یہ بات سامنے آئی کہ سانس کی مشقیں جسمانی بیماریوں کیلئے تریاق ثابت ہوئیں‘ معدے کے مختلف امراض میں یہ مشقیں جادوئی مانند اثر کرجاتی ہے۔ سانس کی مشقوں سے خون میں سرخ و سفید ذرات کی تعداد میں اضافہ ہوجاتا ہے جو کہ حسن کیلئے بنیاد ہے اسی لیے سانس کی مشقیں کرنے والوں کا چہرہ سرخ و سفید ہوجاتا ہے۔
ان مشقوں سے دماغ بے حد طاقتور ہوجاتا ہے‘ قوت حافظہ یادداشت بے حد تیز ہوجاتی ہے‘ سانس کی مشقوں کے فوائد قلم بند کرنا احقر کے بس کی بات نہیں بس اس کی افادیت و اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ تصوف کے تمام سلسلوں میں اسے شامل کیا گیا ہے۔
جو کچھ پیش کیا گیا ہے اس کی قدر کیجئے یہ کتابوں کی باتیں نہیں ہیں‘ سنی سنائی‘ افسانے نہیں بلکہ ذاتی تجربات و مشاہدات ہیں۔ جو لوگوں کو بہت کچھ کھونے کے بعد مل جاتے ہیں

Pages

 

© 2011 Scientific Spirituality and Yoga - Designed by Mukund | ToS | Privacy Policy | Sitemap

About Us | Contact Us | Write For Us